Tuesday 24 April 2018

fire service in pakistan


فائر سروس ان پاکستان: 
1700ء میں جب لندن میں ایک بہت بڑی سطح پر آگ لگی اور صنعتی انقلاب سے پہلے روم میں ایک بہت بڑا حادثہ رونما ہوا تو دنیا نے آگ اور آگ سے بچاو کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ کیونکہ اس سے پہلے کسی قسم کی کوئی تنظیم ایسی نہیں تھی جو خاص طور پر آگ اور آگ سے بچائ کے بارے میں اپنی خدمات سر انجام دیتا ہو۔ جب پہلی جنگ عظیم رونما ہوئی تو اس وقت ٪80 عمارتوں کو آگ لگنے کی وجہ سے نقصان ہوئے۔ اور دوسری جنگ عظیم میں جو کہ 1945ء-1942ء میں لڑی گئی اس میں ٪80 سے بھی زیادہ نقصانات آگ لگنے کی وجہ سے ہوئی۔ اور صنعتی انقلاب کے بعد پہلی دفعہ ایک ایسی تنظیم کے قیام کے بارے میں سوچا گیا جو انسانوں کو آگ لگنے سے پہنچنے والی نقصانات کا تدارک کریں یا آگ لگنے کی صورت میں انسانی جان و مال کی حفاظت کریں۔ اسی تنظیم کو فائر بریگیڈکے نام سے پکارا جاتا ہے۔ جو کہ مختلف ادوار میں سے مختلف نام کے ساتھ پکارتا رہا۔ دنیامیں پہلی بار فائر بریگیڈکا باقاعدہ سسٹم سن 1945ء میں بنائی گئی۔ اور اس وقت اس کو Air Raid Precautionہوائی حملے کی اطلاع دینے والا محکمہ رکھا گیا۔  
            1947ء میں جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو س وقت پاکستان کے پاس صرف پانچ فائر بریگیڈ تھے۔ مشرقی پاکستان میں ڈھاکہ ، چٹاگون ، راج شاہی اور مغربی پاکستان میں کراچی اور لاہور میں فائر بریگیڈ کا محکمہ موجود تھا۔ روالپنڈی میں فوجی ضرورت کے تحت ایک فائر پوسٹ گوال منڈی میں موجود تھی۔ 1947ء سے 1951ء تک پاکستانی حکمرانوں نے فائر کے بارے میں کسی قسم کی کوئی پیش قدمی نہیں کی۔ اور 1951ء میں سول ڈیفنس ایکٹ رول 9 پاس کیا گیا جسکے تحت ڈپٹی کمشنر کو سول ڈیفنس کا کنٹرولر مقرر کیا گیا اور اس کو یہ پاور دی گئئ کہ وہ کسی کو فائر سےمتعلق 5000 روپے جرمانہ اور چھے ماہ قید کی سزا دی جا سکتی تھی۔ جسے سن 2000ء میں Reviseکر کے جرمانہ 10000 روپے کردیاگیا اور سن 2002ءمیں اس میں دوبارہ ترمیم کر کے جرمانہ کو بڑھا کر 15000 روپے کر دی گئی۔   1952ء میں میونسپل ایکٹ بنائی گئی جس کے تحت شہریوں ک بغیر کسی معاوضہ کے فائر فائیٹنگ کی سہولیت مہیا کرنا میونسپل کارپوریشن کی ذمہ داری قرار ی گئی۔ 1984ء میں کمپنی ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے یہ لازمی قرر دیا گیا کہ جو بھی کاروبار کرتا ہے خواہ وہ چھوٹے پیمانے پر ہو یا بڑے پیمانے پر اس کو اپنی کاروبار میں لگائی گئی رقم کی ایک فیصد فائر سے بچاو اور فائر فائیٹنگ کے لیے مختص کرنی پڑے گی۔ اس کے بعد 1987ء میں ڈائریکٹر جنرل سول ڈیفنس نے ایک فائر آرڈر جاری کیا گیا جس کے تحت تمام سینما گھر ، ہوٹل ، سکول، DCOکے انڈر کام کریں گے۔ اور فائر سے بچاو کے تدابیر کرنے کے وہ خود ذمہ دار ہونگے ۔اس آرڈر کو Gazette of Pakistan Part IIمیں چھپایا گیا۔
            2010ٰء میں کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی  نے فائر پریونشن ونگ قیام میں لایا گیا اور اسلام آباد میں بنے والی عمارتوں میں فائر  پریونشن کی جانچ پڑتال کو یقینی بنانے کے لیے عمار ت کی نقشے میں تمام تر انسٹالیشن کو واضح کرنے اور اس ونگ سے پاس کرنکی قانون بنائی گئی۔ جس کو سراہتے ہوئے راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے گکھڑ پلازہ حادثہ کے بعد راولپنڈ ی میں بھی اس قانون کو لاگو کیا گیا۔

No comments:

Post a Comment

Format: GIF Dimensions: 648w x 85h Size: 34.71K Settings: Selective, 256 Colors, 100% Diffusion Dither, Transparency on, No Transparency Dither, Non-Interlaced, 0% Web Snap shia muslim 1x9 copy